Originally posted by فاروق سعید قریشی View Post


نومبر 30 ،2014 کے حوالے سے اک پیغام (اذانین ہو رہی تھیں)۔


مین جب سننے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں
مَیں جب اُٹھنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

مری تحریر میں اب کھوٹ شامل ہو نہیں سکتا
مَیں جب لکھنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

مَیں کیسے جھوٹ بولوں گا، ریا کیسے میں تولوں گا
مَیں کچھ کہنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

تعصب، بغض،کینہ، رنج و غم، نفرت، دل آزاری
مَیں رَد کرنے لگا تھا، نو اذانیں ہورہی تھیں

غموں کا اپنے پشتارہ، وہیں میں پھینک آیا ہوں
کہ جب ڈرنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

کسی، مَیں اور جانب اپنی باگیں موڑے بیٹھا تھا
مگر چلنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

مَیں اپنی الچھنوں کے اک مکمل حل کا خواہاں ہوں
دعا کرنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

عقیدت سے، محبت سے، مسرت سے، مؤدت سے
یہ دل جھکنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں

اندھیرے تھے مقابل، لیکن اُن کو جس گھڑی ساجد
مَیں سَر کرنے لگا تھا، تو اذانیں ہورہی تھیں۔
انتخاب۔ فاروق سعید قریشی۔:pak1:" smilieid="526" class="inlineimg" />